حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار اور اسلامی مبلغ آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب" نے لکھنو سے تعلق رکھنے والے کسی وسیم نامی شخص کے بارے میں جس نے ہندوستانی عدالت میں قرآن سے عالمی دہشتگردوں کے خلاف ٢٦ آیات قرآن سے خارج کرنے کے لئے مقدمہ دائر کیا ہے بارے میں پوچھے گئے سوال کے تحریری جواب میں لکھا ہے کہ؛
قرآنی تعلیمات کی رو سے مسلمان کو پہچاننا کبھی بہت مشکل مسئلہ رہا ہے یہاں تک کہ اسے پہچاننے کے لئے صرف وحی الہی اکیلا ذریعہ رہا ہے کہ جس سے ویسا مسلمان پہچانا جائے اور اللہ سبحان و تعالی نے اسے منافق کے نام سے پہچانوایا ہے، اور آخرالزمان کے لئے اللہ سبحان و تعالی کے آخری نبی حضرت محمّد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ سبحان و تعالی کے خلاف کھلی جنگ چھیڑنے والے کہ جنہیں قرآن نے کافر کے نام سے یاد کیا ہے جنہیں عالمی دہشتگرد کہنا صحیح ترجمہ ہو سکتا ہےسے زیادہ انہی مسلمان منافقون کے خلاف نبرد آزما رہے ہیں اور جب ایسا مسلمان منافق اپنی شناخت ختم کرکے اللہ سبحان و تعالی سے کھلی دشمنی کرنے والے عالمی دہشتگردوں (کافروں) کی صف میں چلا جاتا ہے گویا اسلام کے سینے پر بیٹھا یہ بھوج ہلکا ہوتا ہے ٹھیک یہی کام منافق وسیم لکھنویی نے ہندوستان کی عدالت عظمی میں قرآن کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی سوچ اور سازش کا حصہ بن کے کیا ہے اور ہر فقہی علمی اعتبار سے مرتد ہو گیا ہے اور اب منافق وسیم مرتد کی کوئی اوقات نہیں رہی ہے کہ اس کے بارے میں مزید کچھ کہا جائے۔
البتہ غور طلب بات یہ ہے کہ ہندوستان کی عدالت عظمی ایسی کتاب (قرآن) کہ جس کا چودہ سو سالوں سے دعوی رہا ہے کہ اگر کسی کا ماننا ہے کہ یہ کتاب (قرآن) خالق کائنات رب العالمین اللہ سبحان و تعالی کا کلام نہیں ہے بلکہ اسکے بندے کی کتاب ہے تواس کے مقابلے میں ایک سورہ کیا ایک آیت لے آئے۔ اور تاریخ گواہ ہے جس دن قرآن نے ایسا دعوی کیا تب سے آج تک کوششیں جاری رہی ہیں لیکن کوئی قرآن کے دعوے کو نہیں جھٹلا سکا ہے تو ایسے میں پہلے ہندوستانی عدلیہ کو ثابت کرنا ہوگا کہ قرآن اللہ سبحان و تعالی کا کلام نہیں ہے تب جاکے ہندوستانی عدلیہ قرآن کی کسی آیت پر بحث چھیڑنے کے مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے۔
اب اگر ہندوستانی عدلیہ قرآن کے خلاف مقدمے کو صرف عدلیہ کا وقت ضایع کرنے اور ملک میں بے معنی اخراجات کا بھوج کھڑا کرنے کے پیش نظر مقدمے کو خارج کرتی ہے تو ایسے میں سوال پیدا ہو گا کہ کیا ایسے مقدمے کو دائر کرنا عدلیہ کی توہین نہیں ہے؟ اگر عدلیہ کی توہین ثابت ہو جائے تو توہین کرنے والے کی سزا کیا ہونی چاہئے؟
اس طرح ہندوستانی عدالت عظمی میں قرآن کے خلاف مقدمہ دائر ہونا ہندوستانی عدلیہ کی توہین بھی ہے اور امتحان بھی ہے،اللہ سبحان و تعالی کے کلام کی توہین کرنے والا حقیقت میں خود ذلت دارین اپنا مقدر بناتا ہے۔